British Census 2011: Be Counted Be Kashmiri
کشمیر یوں کی جداگانہ شناخت
(قسط 1 )
ازیونس تریابی
بروز جمعرات مورخہ 10 مارچ 2011 کو بی بی سی ریڈیوں ایشین نیٹ ورک پرایک بجے بعد دوپہر نیہال (Nihal) کے پروگرام میں عنقریب شروع ہونیوالی مردم شماری (census) کے فارموں میں برطانیہ میں آباد کشمیریوں اور سکھوں کی جداگانہ قومیتی شناخت کو تسلیم کروانے کے مطالبات پر ایک دلچسپ اور معلوماتی بحث ہوئی ہے ۔ تقریباً ایک گھنٹے کے اس پروگرام میں ایسوسی ایشن آف برٹش کشمیری کے راہنما شفق حسین نے برطانوی کشمیریوں کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں مردم شماری کرانے کا ذمہ دار ادارہ آفس فار نیشنل سٹیٹیسٹک(Office for National Statistics) برطانوی کشمیریوں کے خلاف امتیازی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔شفق حسین نے اپنے اس دعوے کی تائید میں یہ ایک ٹھوس دلیل پیش کی ہے کہ گزشتہ 2001 کی مردم شماری کے دوران صرف دوہزار خانہ بدوشوں نے اپنے لئے جپسی (Gypsy) شناخت ظاہر کی تو موجودہ 2011 کی مردم شماری میں اُن کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کرلیا گیا ہے جبکہ تہیس ہزار (23,000) سے زائد کشمیریوں نے اپنی قومیتی شناخت ’’کشمیری ‘‘ ظاہر کی ہے مگر کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم نہیں کیاگیا ۔
سفق حسین کے موقف پر پروگرام میں شامل آفس فار نیشنل سٹیٹیسٹک کے نمائندے نے یہ نہایت ہی بھونڈی قسم کی دلیل پیش کی ہے کہ برطانیہ میں آباد کشمیریوں کی اکثریت اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی ہے اس لئے کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کرنے اور ان کے لئے الگ خانہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس طرح برطانیہ کا آفس فار نیشنل سٹیٹیسٹک اصل میں برطانوی کشمیریوں کی قومیتی شناخت کے ایک جمہوری و جائز مطالبے اور برطانوی معاشرے کے ایک اہم مسئلے کو کشمیر کی جبری تقسیم اور اس پر بھارت اور پاکستان کے جبری قبضے کی سیاست کے ساتھ نتھی کرکے اسے پیچیدہ بنانے کی کوشش کررہا ہے جس سے کشمیریوں کے خلاف برطانوی حکمرانوں کے تاریخی نوعیت کے جرائم کا پنڈورا بکس کھُل سکتا ہے ۔
برطانیہ میں اپنی جداگانہ قومی کشمیری شناخت تسلیم کروانے کا کشمیریوں کا مقصد سردست مردم شماری کے مقاصد کے ساتھ جڑا ہوا ہے جوکہ خالصتاً برطانیہ کے کثیر الثقافتی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے ۔مردم شماری کا ایک بنیادی مقصد برطانیہ میں آباد مختلف قومیتوں جنہیں عام طور پر مختلف کمیونٹیز بھی کہا جاتا ہے ،کی مختلف ضرورتوں کا اندازہ لگا کر انہیں پورا کرنا ہوتا ہے۔ان میں روزگار، صحت ، رہائش ، تعلیم اورمادری زبان جیسے اہم مسائل شامل ہوتے ہیں ۔ ایک عام اندازے کے مطابق اس وقت چھ لاکھ سے زائد کشمیری برطانیہ میں آباد ہیں جوکہ برطانیہ کے کثیر الثقافتی معاشرے کا ایک اہم اور نہایت موثر جُز ہے ۔مگر مردم شماری کے فارموں میں کشمیریوں کے لئے الگ خانہ نہ ہونے کے باعث یہ معلوم کرنا ممکن نہیں ہے کہ برطانیہ میں آباد دوسری کمیونٹیز کے مقابلے میں روزگار، صحت ، رہائش ، تعلیم وغیرہ میں کشمیری کمیونٹی کس مقام پر اور کہاں کھڑی ہے ۔
ایک عام خیال کے مطابق برطانیہ میں آباد دوسری کمیونٹیز کے مقابلے میں کشمیری کمیونٹی کی نوجوان نسل میں بے روزگاری اور جرائم کا رحجان زیادہ اور تعلیم کا رحجان بہت کم ہے اور یہ تاثر عام پایا جاتاہے کہ منشیات اور اس سے متعلق جرائم میں ملوث کشمیریوں کی نئی نسل کا تناسب دوسری کمیونٹیز کے مقابلے میں زیادہ ہے اور آبادی کے تناسب کے لحاظ سے برطانیہ کی جیلوں میں بند کشمیری نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔یہ خیالات اور تاثرات کس حد تک حقائق پر مبنی ہیں ان کا صیح اندازہ اعداد وشمار کی عدم موجودگی میں لگانا کسی طرح ممکن نہیں ہے اور اگر یہ خیالات اور تاثرات برطانوی معاشرے کے حقائق ہیں تو پھر تحقیقات کرکے ان کے اسباب کا کھوج لگانے اور انہیں دور کرنے کی ذمہ داری حکومت اور کمیونٹی کی خدمات انجام دینے والے سرکاری اداروں پر عائد ہوتی ہے ۔
اگر برطانوی کشمیریوں کو اپنی کمیونٹی کی فلاح وبہود اور اپنی نئی نسل کے بارے میں کوئی تشویش لاحق ہے اور وہ ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو دور کرنے کاکوئی ارادہ رکھتی ہے تو اس کا صیح طریقہ کار صرف یہی ہے کہ برطانوی کشمیریوں کے ثقافتی مسائل کو بھارتی اور پاکستانی کمیونٹیز کے مسائل کے ساتھ گڈ مڈ کرکے انہیں اعداوشمار کے ہندسوں کے نیچے دبانے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ کی جداگانہ قومی شناخت کو تسلیم کیا جائے اور برطانیہ میں آباد دوسری کمیونٹیز کی طرح کشمیری کمیونٹی کے بارے میں بھی روزگار، صحت ، رہائش اور تعلیم کی موجودہ صورت حال کے اصل اعداد وشمار کو سامنے لایا جائے اور کشمیریوں کی شکایات کاازالہ کیا جائے ۔جب سے برطانوی کشمیریوں نے یہ ادراک حاصل کیا ہے کہ اُن کی جداگانہ قومی شناخت کو تسلیم کئے بغیر برطانیہ میں کشمیری کمیونٹی کے حقوق کا موثر دفاع اور اس کی فلاح بہبودکا موثر کام ممکن نہیں ہے اُس وقت سے کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کروانے کی جدوجہد جاری ہے ۔شروع میں برطانیہ میں ایسی کشمیری تنظیموں اور گروپوں کا قیام عمل میں لایا گیا جو کشمیر کی سیاسی پارٹیوں کے اندرونی مسائل کے مقابلے میں برطانوی کشمیریوں کے مسائل میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے اور تحریک آزادی کشمیر میں اپنے کردار کو صرف سفارتی اور سیاسی محاذ تک محدود رکھنا چاہتے تھے ۔ان برطانوی کشمیری تنظیموں اور گروپوں نے کشمیریوں کی جداگانہ قومی شناخت کو تسلیم کرانے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور اس جدوجہد میں کچھ کشمیری انفرادی طور پر بھی شامل تھے لیکن کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کروانے کی جدوجہد کرنے والے ان گروپوں و تنظیموں اور انفرادی کشمیریوں کے درمیان کوئی کوآرڈی نیشن موجود نہ تھی ۔اپنے اپنے طور طریقے سے جدوجہد کرنے والی ان تنظیموں میں سے ایک کشمیری ورکرز ایسوسی ایشن بھی تھی ۔
1998 ء میں کشمیری ورکرز ایسوسی ایشن(برطانیہ) کے چیئر مین شفق حسین نے جو اب ایسوسی ایشن آف برٹش کشمیری کے ساتھ وابستہ ہیں، کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کروانے کے لئے مردم شماری کے ذمہ دار ادارے آفس فار نیشنل سٹیتیسٹک ، ممبران پارلیمنٹ اور مختلف مقامی کونسلوں کو ایک خط لکھاجس پر مردم شماری کے ڈائریکٹر گراھم سی جونز (Graham C Jones) اور ممبران پارلیمنٹ میں سے راجرگاڈسف (Roger Godsif) ، ٹونی بن(Tony Ben) اور ولیم ھیگ(William Hague) نے مثبت اور حوصلہ افزا جوابات دیے ۔اس دوران بریڈ فورڈ اور اس کے ارگرد رہنے والے شمال کے کشمیری بھی کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کروانے کا کام کررہے تھے ۔لہذامورخہ 20 ؍ جنوری 1999 ء کو مختلف کشمیری جماعتوں ، گروپوں اور شہروں کے کشمیری نمائندوں کی ایک کانفرنس بریڈ فورڈ میں بلائی گئی جس میں کشمیریوں کی جداگانہ قومی شناخت کو تسلیم کروانے کے لئے قومی سطح پر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا او راس مقصد کے لئے کشمیر قومی شناخت مہم(Kashmir National Identity Campaign) کا قیام عمل میں لایا گیا اور معروف کشمیری تریابی (پہاڑی) زبان کے قلمکار علی عدالت کو اس مہم کا کوآرڈی نیٹر منتخب کیا گیا۔
علی عدالت کے سچے جذبے ، سخت محنت اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مخلصانہ رویے اور بہت سے کشمیریوں کی مدد سے بارہ (12) سال کے عرصے میں کشمیر قومی شناخت مہم ایک ایسے مرحلے پرپہنچ چکی ہے جہاں اب نہ تو اس کی واپسی کا کوئی راستہ ہے اور نہ ہی اس کے رُک جانے کا کوئی امکان۔البتہ مردم شماری کے ذمہ دار برطانوی ادارے نے اگر کشمیریوں کے خلاف اپنا موجودہ امتیازی رویہ جاری رکھا تو یہ تنازعہ کشمیر پیدا کرنے میں برطانیہ کے مجرمانہ کردار کو بے نقاب کا ایک سبب بھی بن سکتا ہے کیونکہ اپنی جداگانہ قومی شناخت کو تسلیم کرانے کی یہ تحریک چند برطانوی کشمیریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ برطانیہ میں آباد کشمیری کمیونٹی کے بنیادی حقوق کا ایک سوال ہے ۔
علی عدالت کے مطابق برطانیہ کی اٹھارہ مقامی کونسلوں نے کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کرلیاہے ۔مورخہ 17 تا 23 مئی 2008 ء کے دی نیشن لندن کے مطابق کم ازکم انچاس (49) ممبران پارلیمنٹ نے ہرلی ڈے موشن (Early Day Motion) پر اپنے اپنے دستخط کرکے کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کی حمایت کی ہے جن میں سے دو کا تعلق ٹوری ، ایک کا انڈی پنڈنٹ ٹوری، چھتیس کا لیبر ،چھ کا لبرل ڈیموکریٹک،ایک کا سکاٹش نیشنل پارٹی اور ایک کا سوشل ڈیموکریٹک اینڈ لیبر پارٹی سے ہے ۔برصغیر ہندوستان کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والوں اور خاص کر کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اس ہرلی ڈے موشن پر دستخط کرنے والوں میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا دعویٰ کرنے والے کسی کشمیری یا پاکستانی رکن پارلیمنٹ کانام نہیں ہے جبکہ لیسٹر سے بھارت نژاد رکن پارلیمنٹ کیتھ واز اور بریڈ فورڈ سے رکن پارلیمنت مارشا سنگھ نے ہرلی ڈے موشن پر اپنے اپنے دستخط کرکے کشمیریوں کی جداگانہ شناخت کو تسلیم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی ہے ۔(باقی آئندہ)